Skip to main content

عورت کی کہانی (منظور قادر کالرو)


4
عورت ماں کے روپ میں باعثِ جنت، بیٹی کے روپ میں باعثِ رحمت، بہن کے روپ میں باعثِ عزت اور بیوی کے روپ میں باعثِ سکون ہے۔ ایک ایسی کتا ب ہے جس کا ہر صفحہ نئے رنگ کا ہوتا ہے۔ انسان اگر سمندر کی گہرائی جاننا چاہے تو جان سکتا ہے مگر عورت کے دل کی گہرائی نہیں جان سکتا۔ یہ برحق کہ صبرو تحمل اور جفا کشی کاعطیہ عورت کے لئے قدرت کی طرف سے ہے لیکن اس سب کے باوجودعورت ہونا بڑ ے دل جگرے کا کام ہے۔ کبھی تو اس صبرورضا کے پیکر کوایک مرلہ کی جگہ میں زندگی بسرکر نے پر مجبور کےا جاتا ہے تو کبھی اس سے یہ بھی چھین لیا جاتاہے۔ کبھی اسے لفظوں کے نشتر جھیلنے پڑتے ہیں تو کبھی بد نظروں کے تیر سہنا پڑتے ہیں۔کبھی اسے پاک دامنی میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو کبھی ناکردہ گناہوں کی سزا کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔ کبھی اسے محدود رقم میں غیر محدود خرچ چلاتے ہوئے خاوند کی بے اعتباری کا نشانہ بننا پڑتا ہے تو کبھی اولاد سے خواہشات کی تکمیل نہ ہونے پر قصور وار ٹھہرایا جانے لگتا ہے۔ کبھی اِسے جون جولائی کی گرمی میں سفر کرتے ہوئے بے حیا کہلوانا پڑتا ہے۔ تو کبھی سودا سلف لینے بازار جانے پر بد معاش کہلوانا پڑتا ہے۔ کبھی اسے جنم لئے جانے پر منحوس خیال کےا جانے لگتا  ہے تو کبھی جنم لے لینے پر بھائیوں کے مقابلے میں دھتکارا جانے لگتا ہے۔

جون جولائی کے دنوں میں بسوں میں سفر کرتے ہوئے برقعہ پوش خواتین اپنے ننّے منّے سے بچے کو لے کر سفر کر رہی ہوتی ہیں تو دل کانپ کانپ جاتا ہے۔ جب ہلکا باریک قمیض بھی اتار پھینکنے کو جی چاہ رہا ہوتا ہے وہ موٹے سے برقعے میں کبھی اپنا سر اپا ڈھانپ رہی ہوتی ہیں تو کبھی اپنے ننے منے بچے کو روتے تڑپتے چپ کروانے کے جتن کر رہی ہوتی ہیں۔ جی چاہتا ہے صبر کرنے والوں کے لئے سب سے بڑا سول اعزاز ستارہ جرات ان کے گلے میں پہنا دیا جائے۔ پہلا دھچکہ عورت کو اس وقت لگتا ہے جب وہ جوانی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے والی ہوتی ہے۔اُسے کھیلنے کودنے اور باہر جانے سے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ زمانہ بہت خراب ہے۔تھوڑے بہت احتجاج کے بعد سب بچیاں رک تو جاتی ہیں لیکن اُن کی سوچ پر کون پہرا لگا سکتا ہے۔وہ سوچنے لگتی ہیں ہمارے بھائیوں پر تو کوئی پابندی نہےں اُن کا جدھر جی چاہے جا سکتے ہیں لیکن ہم پر سب پابندی ہیں۔ جس چیز سے روکا جائے وہی شدت اختیار کر لیتی ہے اس لئے ان کی کھیلنے کودنے بازاروں میں آوارہ گھومنے اور تنہا ادھر سے اُدھر بے خوف جانے کی خواہش ان کے اندرشدت سے پنپنے لگتی ہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کر سکتیں۔ دوسری منزل وہ ہوتی ہے جب عورت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ لیتی ہے اور اس پر مختلف اوڑھنیاں اور پردے ڈلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بھائیوں کو بہنوں پر برتری دی جانے لگتی ہے۔


بیٹیوں کو دھتکارا جانے لگتا ہے۔ اُن کو پرایا دھن اور پرایا مال سمجھ کر ان سے ذلت امیز برتاﺅ کیا جانے لگتا ہے۔ ماں باپ اسے اپنے کندھوں پر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔بیٹوں کو لاڈ پیار کیا جاتا ہے لیکن بیٹیوں کو دھتکارا جانے لگتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مارا پیٹا جانے لگتا ہے۔ بات بات پر روکا اور ٹوکا جانے لگتا ہے۔ تنقید اور طعن و تشنےع کا نشانہ بنایا جانے لگتا ہے۔تیسرا مرحلہ وہ ہوتا ہے جب عورت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ لیتی ہے ۔ عورت کی زندگی کا یہ دور ایسا دور ہوتا ہے جس میں اسے پل صراط پر چلنا ہوتا ہے۔ عورت کی معمولی سی خطا اس کی اور اس کے والدین کی زندگی جہنم بنا کر رکھ دیتی ہے۔ ایسے دور میں والدین بے غیرت کہلوانے کے خوف سے لمحہ لمحہ دہل رہے ہوتے ہیں۔وہی اشعار اور وہی باتیں جو ہم اس دور میں پرائی بہو بیٹیوں کیلئے کہتے ہیں یہ اپنی اولاد کے لئے ہر گز برداشت نہیں کر پاتے۔ بڑے بڑے فساد لڑائیاں جھگڑے انہیں معاملات پر ہوتے ہیں۔عورت کے لئے یہ عجیب پیچیدہ صورت حال ہوتی ہے۔نہ تو جذبات کو ظاہر کیا جا سکتا ہے اور نہ چھپایا جا سکتا ے۔

عورت کی زندگی کا اگلا کٹھن مرحلہ شادی کے بعد ایک نئے گھر میں اپنے آپ کو ایڈ جسٹ کر نے کا ہوتا ہے۔ نئے گھر میں سب کو سمجھنا اور ان کے مزاج کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا وقت طلب کام ہوتا ہی۔لیکن لوگ یہ کام فوری چاہتے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ماں اپنے بیٹے کی محبت کی واحد اجارہ دار ہوتی ہے جس میں کوئی دوسرا آکر حصہ دار بن جاتا ہے وہ یہ محرومی برداشت نہیں کر سکتی اور بہو سے لڑائی جھگڑا شروع کر دیتی ہے۔عورت کی زندگی کا سب سے کٹھن مرحلہ وہ ہوتا ہے جب وہ اولاد جیسی نعمت سے محروم ہو جاتی ہے۔شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد اگر نئے وجود کی آمد کے آثار نہ ہوں تو لڑکی کے سسرال عزیز اسے اور اس کے گھر والوں کو لڑکی کے چیک اپ اور علاج کے مشورے دینا شروع کر دیتے ہیں۔اگر کوئی تاخیر ہو جائے تو اس تاخیر کی ذمہ دار صرف اور صرف لڑکی قرار دی جاتی ہے۔ جاہل تو ایک طرف پڑھے لکھے اور سمجھدار بھی یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ نقص لڑکی میں ہے اور اُسے ہی علاج اور چیک اپ کی ضرورت ہے۔ کئی گھروں میں تو لڑکی پر اولاد کے لئے اتنا دباﺅ ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ شادی باقی رہنے کا دارومدار صرف اور صرف اسی بات پر ہے کہ وہ جلد از جلد کوئی خوش خبری سنائے۔عام طور سے اس مسئلے میں کہیں بھی نہ لڑکے کے چیک اپ کاذکر ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کسی نقص کے ہونے کا شک کیا جاتا ہے۔لڑکا خود بھی اس معاملے میں بیوی ہی کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔


اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکا اور اس کا خاندان لڑکی کے خلاف ایک محاذ بنا لیتے ہیں بات بات پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور طلاق کی دھمکیاں تک دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات تو ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ دباﺅ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ عورت اپنی زندگی سے ہی بیزار ہو کر خود کشی تک پر مجبور ہو جاتی ہی۔یا پھر خود اس کے سسرال والے اسٹوو پھٹنے کا بہانہ بنا کر اسے موت کی آغوش میں بھیج دیتے ہیں۔شوہر اپنے ٹیسٹ کروانے کو اپنی ہتک سمجھتا ہے اور کسی صورت ٹیسٹ پر راضی نہیں ہوتا اور نہ ہی بیوی سے اس موضوع پر بات کرنا پسند کرتا ہے۔عورت جب بھی کسی مستند ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے تو اس سے اسکے خون اور پیشاب کا معائنہ اور اس کے شوہر کے Semen Analysis کی رپورٹ طلب کی جاتی ہے جس پر وہ یا تو وہ اس قسم کے بہانے کرتی ہے کہ رپورٹ ٹھیک ہے مگر گم ہو گئی ہے یا اصرار کرتی ہے کہ صرف اسی کا علاج کیا جائے۔ اس قسم کی صورت حال میں اگر نقص شوہر میں ہے تو اس کی نہ تشخیص ہوتی ہے نہ ہی علاج۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شوہر دوسری شادی بھی کر لیتا ہے مگر اولاد دوسری بیوی سے بھی نہیں ہوتی۔تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بانجھ پن کی شرح خواتین اور مردوں میں برابر ہے۔ اگلا مرحلہ پرورش کا ہوتا ہے جس میں عورت اپنے آ پ کو بھول جاتی ہے۔ وہ اپنا آپ مٹا دیتی ہے اور اپنی ساری توانائیاں اور سارا وقت اس کی پرورش میںصرف کر ڈالتی ہے۔


کبھی یہ خوف کہ باہر نکلتے کوئی حادثہ نہ ہو جائے کبھی یہ خوف کہ کلا س میں کسی سے لڑائی نہ ہو جائے۔ کبھی یہ خوف کہ کلاس میں فیل نہ ہو جائے کبھی یہ خوف کہ امتحان نزدیک ہیں بیمار نہ پڑ جائے۔کبھی ان کی فیسوں کی فکر تو کبھی ان کے یونیفارم کا فکر کبھی ان کی کتابوں کی فکر تو کبھی پنسلوں کاپیوں کی فکر۔خاوند سے جھاڑ جھپٹ کہ تم اتنے پیسوں کا کرتی کیا ہو ایک طویل کٹھن سفر کے بعد اگر بچہ منزل مقصود پر پہنچ جائے اور نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر شادی کی فکر۔ شادی کے لئے اخراجات کی فکر۔ علیحدہ گھر بنانی کی فکر اور اس سارے سفر کے بعد اگر بہو اچھا انسان نہ نکلے تو آخری عمر میں در بدر ٹھوکریں۔ وہی دھتکار ا جانا ۔ وہی عدم توجہی۔ وہی بے قدری۔ وہی دل کا بار بار ٹوٹنا اور جڑنا۔ وہ محتاجی اور پھر اس بے قدری میں زندگی کے دن پورے کرنا بہت کٹھن کام ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے کبھی تو عورت کے قدموں میں جنت رکھ دی تو کبھی ماں کی خدمت میں ولاےت رکھ دی جہاں قراآن میں نماز کا ذکر کےا وہیں والدین کی خدمت پر بھی زور دیا۔

Comments

Popular posts from this blog

New-Kalam-e-Ameer-e-AhleSunnat

غزوہ بدر اور اثرات صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

غزوہ بدر اور اثرات صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   مصباح کبیر غزوہ بدر، ایک طرف تو معرکہ حق و باطل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو نہ صرف نظام باطلہ کے خلاف ایک کھلی جنگ تھا بلکہ جس کا مقصد نظامِ باطلہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا اور دوسری طرف یہ گلستانِ محبت کے جانثاروں، جمال محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر ستاروں کی پر رشک ایمانی اداؤں کا تذکرہ بھی ہے۔ جن کے نام پر تاریح آج بھی احترامًا نگاہیں جھکا لیتی ہے، زمین جن کے پاؤں کو بوسہ دے کر نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات کی طلبگار نظر آتی ہے، آسمان جن کی استقامت پر نثار ہو جاتا ہے اور مسافرانِ عشق و مستی جن کے چراغ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آج بھی اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں۔ انہوں نے میدان بدر میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے افرادی قوت کہ لحاظ سے دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں یہ سب سے چھوٹی جنگ ہے مگر اس کے نتائج دنیا کی عظیم ترین جنگوں سے زیادہ مؤثر اور تاقیامت رہنے والے ہیں۔ اس میں ایک طرف تو کفار و مشرکین اپنی بھرپور جنگی تیاری کے ساتھ جذبہ کفر و عناد...

ہم اور پردہ؟

ہم اور پردہ؟