Skip to main content

Benefits of Olive Oil?


زیتون زیتون کا درخت تین میٹر کے قریب اونچا ہوتا ہے۔ چمکدار پتوں کے علاوہ اس میں بیر کی شکل کا ایک پھل لگتا ہے جس کا رنگ اودا اور جامنی ذائقہ بظاہر کسیلا اور چمکدار ہوتا ہے۔ مفسرین کی تحقیقات کے مطابق زیتون کا درخت تاریخ کا قدیم ترین پودا ہے۔ طوفان نوح کے اختتام پر پانی اترنے کے بعد زمین پر سب سے پہلی چیز نمایاں ہوئی، وہ زیتون کا درخت تھا۔ اس پس منظر کی بدولت زیتون کا درخت سیاست میں امن اور سلامتی کا نشان بن گیا ہے۔ زیتون کا پھل غذائیت سے بھرپور ہے مگر اپنے ذائقہ کی وجہ سے پھل کی صورت میں زیادہ مقبول نہیں۔ اس کے باوجود مشرق و سطٰی، اٹلی، یونان اور ترکی میں بہت لوگ یہ پھل خالص صورت میں اور یورپ میں اس کا اچار بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ یونان سے زیتون کا اچار سرکہ میں آتا ہے اور مغربی ممالک میں بڑی مقبولیت رکھتا ہے۔ یہ درخت یورپی ممالک، اٹلی، کیلیفورنیا اور آسٹریلیا اور دیگر یورپی ممالک سے درآمد ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے زیتون اور اس کے تیل کا بار بار ذکر کرکے شہرت دوام عطا کر دی ہے۔ سورہ الانعام، سورہ النحل، سورہ النور، سورہ المومنون، سورہ التین، ان سورتوں میں اللہ تعالٰی نے زیتون کے درخت کو ایک مبارک یعنی برکت والا درخت قرار دیا۔ اس کے پھل کو اہمیت عطا فرمائی۔ پھر لوگوں کو متوجہ کیا کہ زیتون، کھجور، انار اور انگور میں فوائد کے خزانے بھرے پڑے ہیں۔ بشرطیکہ تم ان کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرو۔ حدیث پاک میں اس کی افادیت و اہمیت حضرت اسیدالانصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، زیتون کے تیل کو کھاؤ اور اس سے جسم کی مالش کرو کہ یہ ایک مبارک درخت سے ہے۔ (ترمذی۔ ابن ماجہ۔ دارمی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، “زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے لگاؤ کیونکہ یہ پاک اور مبارک ہے۔“ (ابن ماجہ۔ حاکم) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم ذات الجنب کا علاج قسبط البحری اور زیتون کے تیل سے کریں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ “زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے لگاؤ کیونکہ اس میں ستر بیماریوں سے شفا ہے جن میں ایک کوڑھ بھی ہے۔“ زیتون کے تیل کو سر پر لگانے کا فائدہ جو لوگ باقاعدگی سے یہ تیل سر پر لگاتے ہیں، نہ تو ان کے بال گرتے ہیں اور نہ ہی جلد سفید ہوتے ہیں۔ اس کی مالش سے داد اور بھوسی زائل ہو جاتے ہیں۔ کان میں پانی پڑا ہو تو زیتون کا تیل ڈالنے سے یہ پانی نکل جاتا ہے۔ اطباء نے لکھا ہے کہ اس کی سلائی باقاعدہ آنکھ میں لگانے سے آنکھ کی سرخی کٹ جاتی ہے اور موتیا بند کو کم کرنے میں مفید ہے۔ جسم پر مالش کے اثرات اور فوائد زیتون کے تیل کی مالش کرنے سے اعضاء کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ پھٹوں کا درد جاتا رہتا ہے۔ بعض طبیب اس کی مالش کو مرگی کے لئے بھی مفید قرار دیتے ہیں۔ وجع المفاصل اور عرق النساء کو دور کرتا ہے۔ چہرے کو بشاشت دیتا ہے۔ اسے مرہم میں شامل کرنے سے زخم بہت جلد بھرتے ہیں۔ ناسور کو مندمل کرنے میں کوئی دوائی زیتون سے بہتر نہیں۔ زیتون کے تیل سے قبض کا علاج اکیس تولہ جو کے پانی میں روغن زیتون ملا کر پینے سے پرانی قبض جاتی رہے۔ تیل پینے سے معدہ اور آنتوں کے اکثر امراض جاتے رہتے ہیں۔ پیٹ کے کیڑے مارتا ہے۔ گردہ کی پتھری توڑ کر نکال سکتا ہے۔ استسقاء میں بھی مفید ہے۔ جسمانی کمزوری کو رفع کرتا اور پیشاب آور ہے۔ پتہ کی سوزش اور پتھری کا علاج اطباء نے اسے مرارہ (پتہ) کی پتھری میں مفید قرار دیا ہے۔ پتہ کی سوزش اور پتھری کے مریضوں کو بنیادی طور پر چکنائی سے پرہیز کرایا جاتا ہے مگر روغن زیتون ان کے لئے بھی مفید ہے بلکہ پرانے اطباء نے مریضوں کو 2/1 1 پاؤ تک مریضوں کو روزانہ تیل پلا کر صفراوی نالیوں سے سرے نکالنے کا کام لیا ہے۔ بعض اوقات اسی عمل کے دوران پتھریاں بھی نکل جاتی ہیں۔ امراض تنفس اور زیتون کا تیل نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ذات الجنب میں زیتون کا تیل ارشاد فرمایا۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر سانس کی ہر بیماری کے مبتلا کو زیتون کا تیل ضرور دیا گیا۔ دمہ کے مریضوں کی بیماری میں جب کمی آ جائے تو آئندہ اس قسم کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے زیتون کے تیل سے بہتر دوا میسر نہ آ سکی۔ انفلوئنز اور زکام والوں کو باقاعدہ زیتون کا تیل پینے سے نہ ہی ان کو زکام لگتا ہے اور نہ ہی نمونیا ہوتا ہے۔ اگر ان کو کبھی انفلوئنزا ہو بھی جائے تو ان کا حملہ بڑا معمولی ہوتا ہے۔ زکام اور دمہ کے دوران اضافی فائدے کے لئے ابلے ہوئے پانی میں شہد بھی مفید ہے۔ (طب نبوی اور جدید سائنس) تپ دق اور زیتون کا تیل حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دونوں روایات میں ذات الجنب میں زیتون کا تیل تجویز ہوا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں زیتون کا تیل جذام میں مفید ہے۔ علم الجراثیم اور علم الامراض کے اعتبار سے کوڑھ اور تپ دق کی توعیت ایک ہے۔ دونوں کے جراثیم Acid Fast ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ادویہ جو تپ دق پر مؤثر ہوتی ہیں، جذام میں بھی مفید ہیں اور اس کے برعکس بھی درست ہے۔ اس لئے تپ دق کے مریضوں کو اس نسخہ کے مطابق قسط اور زیتون دینے کا خیال پیدا ہوا۔ زیتون کے تیل کے سلسلہ میں معلومات کے دوران خان بہادر ڈاکٹر سعید احمد خان سے ملنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر سعید صاحب پاکستان میں تپ دق کے علاج کے سبب سب سے بڑے سینی ٹوریم ڈاڈر ضلع مانسہرہ کے تیس سال سپرنٹنڈنٹ رہے ہیں۔ انھوں نے اس ضمن میں عجیب تجربہ سنایا۔ ایک مریض کو 1936ء میں دق ہو گئی۔ مدراس کے مدناپلی سینی ٹوریم میں اس کی پانچ پسلیاں نکال دی گئیں۔ اس کی حالت ابھی بہتر نہ ہوئی تھی تو معلوم ہوا کہ دق کا اثر آنتوں پر بھی ہو گیا ہے۔ اس زمانے کے علم کے مطابق lleocoecal Tuberculosis کا کوئی علاج نہ تھا۔ ڈاکٹروں نے اس مرحلہ پر اسے جواب دے دیا۔ مریض نے سارا دن رو رو کر مناجات کی۔ خواب میں اسے زیتون کا تیل، الٹراوائیلٹ، شعاعوں اور ایک دوائی کا اشارہ ہوا۔ دوائی تو وہ بھول گیا مگر روزانہ تین اونس تیل پینے لگا اور الٹراوائیلٹ شعاعیں لگوائیں۔ جس ہسپتال سے اسے علاج قرار دیا گیا تھا، اسی سے وہ تین ماہ بعد تندرست ہو کر فارغ ہوا۔ وہ مریض تادم تحریر پچاس سال کی عمر میں بھی سرخ و سفید 1991ء میں زندہ موجود تھا۔ اس مریض پر زیتون کے تیل کے اثرات کے مشاہدہ کے بعد ڈاکٹر سعید صاحب نے چالیس سال تک دق کے مریضوں کو علاج میں تیل ضرور دیا اور ان کا کوئی مریض ضائع نہ ہوا۔ ان مریضوں کو 25 گرام زیتون کا تیل روزانہ اور 8 گرام روزانہ قسط شیریں دی گئی۔ کمزوری کے لئے شہد، کھانسی کے لئے انجیر یا اس کا شربت اضافی طور پر دئیے گئے۔ ابتدائی درجہ کے مریض عام طور پر تین سے چاہ ماہ میں ٹھیک ہو گئے۔ علامات ختم ہونے اور خون کے نارمل ہونے کے بعد مریضوں کو زیتون کا تیل ایک سال تک پینے کی ہدایت کی گئی۔ چھ سال کے مشاہدوں میں کسی مریض کو دوبارہ تکلیف نہیں ہوتی۔ (طب نبوی اور جدید سائنس) زیتون کے تیل سے پرانے زکام اور نکسیر کا علاج ابن قیم نے زکام کے علاج میں قسط البحری کو مفید قرار دیا ہے۔ ذہبی کے مشاہدہ میں قسط کو سونگھنا بھی زکام میں مفید ہے جبکہ ایک روایت کے مطابق مرزنجوش سونگھنے سے زکام ٹھیک ہو جاتا ہے۔ پرانے زکام میں یا ان مریضوں کو جن کو بار بار زکام ہو جاتا ہے۔ زیتون کا تیل آئندہ کے لئے محفوظ کر دیتا ہے۔ بخاری اور ابن ماجہ میں خالد بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ والی روایت کے مطابق ایک چمچ کلونجی کو پیس کر بارہ چمچ زیتون کے تیل میں حل کرکے اس مرکب کو پانچ منٹ ابالنے کے بعد چھان لیا گیا۔ صبح شام ناک میں ڈالنے سے نہ صرف یہ کہ پرانا زکام ٹھیک ہوا بلکہ نکسیر میں بھی از حد مفید رہا۔ معدہ اور آنتوں کے سرطان کا علاج جاپان کے بعض طبی جرائد نے آنتوں کے سرطان میں روغن زیتون کو مفید قرار دیا ہے مگر وہ اپنے اس بیان میں واضح نہ تھے۔ اس ضمن میں مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ میں طبی خدمت بجا لانے والے سینکڑوں ڈاکٹروں سے معلومات حاصل کی گئی۔ ان سب کا متفقہ جواب یہ تھا کہ انھوں نے زیتون کا تیل پینے والے کسی شخص کو بھی پیٹ کے سرطان میں مبتلا نہیں دیکھا۔ جاپانی ماہرین کا خیال ہے کہ لمبے عرصے تک زیتون کا تیل پینے سے معدہ اور آنتوں کے سرطان ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ زیتون کا تیل بہتر ٹانک ہے یہ طبیعت کو بحال اور چہرے کے رنگ کو نکھارتا ہے۔ پیٹ کے فعل کو اعتدال پر لاتا ہے۔ ذہبی کی تحقیقات کے مطابق بالوں اور جسم کو مضبوط کرکے بڑھاپے کے آثار کم کرتا ہے۔ کسی بھی چکنائی اور تیل کے پینے سے پیٹ خراب ہو سکتا ہے مگر زیتون کا تیل اس سے مستثنٰی ہے کیونکہ یہ تیل ہونے کے باوجود پیٹ کی بہت سی بیماریوں کے لئے مصلح ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ زیتون کا تیل غرباء کے لئے بہترین ٹانک ہے مگر زیتون کا وہ تیل جو سبز اور سنہری ہو، وہی مفید ہے۔ سیاہی مائل رنگ کا تیل مضر صحت ہے۔ صحیح تیل مقوی باہ، مقوی معدہ اور سینے کی بیماریوں سے تحفظ مہیا کرتا ہے۔ زیتون کا تیل آگ سے ہونے والے زخموں کے لئے اکسیر ہے۔ زیتون کے تیل میں نمک ملا کر اگر مسوڑھوں پر ملا جائے تو یہ ان کو تقویت دیتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ایک مہمان آیا۔ انھوں نے رات کے کھانے میں اسے اونٹ کی سری اور زیتون کا تیل پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ “میں یہ تمھیں اس لئے کھلا رہا ہوں کہ تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس درخت کو مبارک درخر قرار دیا ہے۔“ زیتون کے تیل کے فوائد ایک نظر میں * زیتون کا تیل زیادہ تر قروح معدہ میں 10 گرام پلاتے ہیں۔ خصوصاً سوتے وقت دودھ کے ساتھ ۔ * درد گردہ اور پتہ کی پتھری میں بےحد فائدہ بخش ہے۔ * حکماء کا قول ہے کہ زیتون سنگ مثانہ کو گلاتا، بلغم کو دور کرتا، پٹھوں کو مضبوط کرتا، تھکن کو دور کرتا اور منہ میں خوشبو پیدا کرتا ہے۔ * یہ نیک لوگوں کی غذا اور سر کا تیل بھی ہے۔ * یہ دونس 50 گرام کی مقدار میں ملین ہے جو متورم بواسیر، قروح معدہ، خونی بواسیر اور قبض میں ایک مفید دوا ہے۔ * تیل مقوی ہے اور امراض جلد میں شفا ہے۔ * پیٹ کی بیماریوں میں مفید ہے۔ تیل پرانا بھی ہو جائے تو مفید رہتا ہے۔ * آنکھ میں لگانے سے آنکھ کی سرخی کٹ جاتی ہے۔ * موتیا کو کم کرنے میں مفید ہے۔ * زہر خوانی میں اس کا تیل دودھ میں ملا کر پلانے سے آرام ہو جاتا ہے اور اجن بچ سکتی ہے۔ * اس کے تیل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر چیونٹیاں نہیں آتیں اور جب اسے دئیے میں جلایا جائے تو یہ دیگر تیلیوں کی طرح دھواں نہیں دیتا۔ * دست آور ہے، آنتوں کے کیڑوں کو نکالتا ہے۔ * جلد میں نرمی اور ملائمت پیدا کرتا ہے۔ * بالوں کی سفیدی کو روکتا ہے۔ * ایگزیما اور چنبل میں قسط، سناہم وزن پیس کر روغن زیتون کا چار گنا میں پکا کر لگانا مفید ہے۔ * مسوڑھوں کا مضبوط بناتا ہے۔ * زیتون کا نمکین پانی آتش زدہ مقام پر آبلے نہیں آنے دیتا۔ * فالج اور اوجاع مفاصل میں بطور مالس استعمال سے فائدہ ہوتا ہے۔ * چنبل جیسے جلدی امراض، جلے ہوئے حصوں پر اور زخموں پر لگانے اور سخت جوڑوں کو نرم کرتا ہے۔ * رکٹس اور بچوں کے دق میں مالش سے کافی فائدہ ہوتا ہے۔ * بلا تکلیف صفراوی پتھریوں کو توڑتا ہے۔ کولیسٹرول جو صفراوی پتھریوں کا جزو اعظم ہے، اس کو روغن زیتون جسمانی حرارت 5۔98 پر تحلیل کرتا ہے اور چند دنوں میں پتے کی پتھری ایک ایسے رفیق محلول میں تبدیل ہو جاتی ہے جو اپنے مقررہ راستوں سے بآسانی گزر جاتی ہے۔ اس لئے درد جگر کے دورے ختم یو جاتے ہیں۔ الماخوذ: فیضان طب نبوی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)

Comments

Popular posts from this blog

New-Kalam-e-Ameer-e-AhleSunnat

غزوہ بدر اور اثرات صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

غزوہ بدر اور اثرات صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   مصباح کبیر غزوہ بدر، ایک طرف تو معرکہ حق و باطل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو نہ صرف نظام باطلہ کے خلاف ایک کھلی جنگ تھا بلکہ جس کا مقصد نظامِ باطلہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا اور دوسری طرف یہ گلستانِ محبت کے جانثاروں، جمال محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پر ستاروں کی پر رشک ایمانی اداؤں کا تذکرہ بھی ہے۔ جن کے نام پر تاریح آج بھی احترامًا نگاہیں جھکا لیتی ہے، زمین جن کے پاؤں کو بوسہ دے کر نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات کی طلبگار نظر آتی ہے، آسمان جن کی استقامت پر نثار ہو جاتا ہے اور مسافرانِ عشق و مستی جن کے چراغ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آج بھی اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں۔ انہوں نے میدان بدر میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے افرادی قوت کہ لحاظ سے دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں یہ سب سے چھوٹی جنگ ہے مگر اس کے نتائج دنیا کی عظیم ترین جنگوں سے زیادہ مؤثر اور تاقیامت رہنے والے ہیں۔ اس میں ایک طرف تو کفار و مشرکین اپنی بھرپور جنگی تیاری کے ساتھ جذبہ کفر و عناد...

ہم اور پردہ؟

ہم اور پردہ؟